گرین ریفائنری پاکستان کیلیے گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے

پاکستان کے تیل اور کیمیکل کے شعبے اس وقت بڑے نازک موڑ پر ہیں، پٹرولیم مصنوعات اور پیٹرو کیمیکلز کی امپورٹ بڑھنے کے ساتھ عالمی دنیا کی گرین فیول پر منتقلی اگرچہ چیلنجز کا سبب ہے، لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے مواقع بھی جنم لیتے ہیں.
گرین ریفائنری انڈسٹریل بیس کو اپنا کر پاکستان نہ صرف اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے، بلکہ گرین آئل اور کیمکلز کو ایکسپورٹ بھی کر سکتا ہے، جس سے چیلنجنگ صورتحال اسٹرٹیجک صورتحال میں تبدیل ہوسکتی ہے.
پاکستان میں ترقی یافتہ ممالک کی طرح وسیع روایتی پٹرولیم صنعت نہیں ہے، جو اس بات کو آسان بناتی ہے کہ پاکستان روایتی پٹرولیم کو چھوڑ کر آسانی اور تیزی سے گرین پٹرولیم کو اختیار کرلے.
گرین پٹرولیم میں آئل، کھاد اور کیمیکلز بنانے کیلیے فصلوں کی باقیات، فضلہ جات، ہوا اور پانی کا استعمال کیا جاتا ہے، دنیا میں اس پر تیزی سے کام جاری ہے، یہ ٹیکنالوجی ڈائمیتھائل بھی پیدا کرتی ہے، جو قدرتی گیس کا متبادل ہے.
پاکستان میں گرین ریفائنری کیلیے درکار تمام لوازمات موجود ہیں، تاہم، پاکستانی پالیسی سازوں کو اس کی تیاری کیلیے دو بنیادی چیزوں مشینری اور قابل اور ٹرینڈ افرادی قوت پر توجہ دینی ہوگی.
چونکہ فی الوقت پاکستانی میں مشینری اور اہل افرادی قوت دونوں کی کمی ہے، اس لیے ابتدائی طور پر پاکستان کو گرین ریفائنریز لگانے اور چلانے کیلیے یورپ، چین اور شمالی امریکا سے ملکوں کی معاونت کی ضرورت ہوگی، مقامی اور غیر ملکی ماہرین کے درمیان اکیڈمک ریسرچ کے پروگرام شروع کرنے ہونگے.
اس کیلیے سرمایہ کاری بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں، کیوں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا گرین انرجی کی طرف دیکھ رہی ہے، البتہ پاکستان کو ایک متحرک اور پرعزم ادارے کی ضرورت ہوگی، جو 10 سالہ منصوبہ بنائے اور اس کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکے.