طالبان نے قومی پارک میں خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کردی
کابل: طالبان حکومت نے بامیان صوبے کے بندِ امیر نیشنل پارک میں خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کردی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کے وزیر محمد خالد حنفی نے کہا ہے کہ بامیان صوبے کے بندِ امیر نیشنل پارک میں خواتین حجاب کی پابندی پر عمل نہیں کر رہی تھیں اس لیے پارک میں ان کے داخلے پر پابندی عائد کردی۔
محمد خالد حنفی نے مذہبی علماء اور سیکیورٹی اداروں پر زور دیا کہ وہ اس وقت تک خواتین کو پارک میں داخل ہونے سے روکیں جب تک کہ کوئی حل نہیں نکل جاتا۔
طالبان کے وزیر نے مزید کہا کہ پارک میں سیر و تفریح کے لیے جانا واجب نہیں اور غیر واجب عمل کے لیے واجب عمل (حجاب) کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔
بامیان صوبے کے علما بورڈ نے کہا کہ جن خواتین نے پارک میں پردے کی پابندی کی خلاف ورزی کی وہ غیر مقامی مہمان خواتین تھیں۔ مقامی خواتین حجاب کا پورا خیال رکھتی ہیں۔
طالبان حکومت کی جانب سے قومی پارک میں خواتین کے داخلے پر پابندی پر سابق افغان رکن پارلیمنٹ اور ہیومن وائٹس واچ کے نمائندوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کی ملازمتوں اور تعلیم پر پہلے ہی پابندی عائد ہے۔
افغانستان میں انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے بھی خواتین کے پارک میں داخلے پر پابندی پر تشویش کا اظہار کیا اور طالبان سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا۔
بندِ امیر کو 2009 میں افغانستان کا پہلا قومی پارک قرار دیا گیا تھا یہ خوبصورت پہاڑوں سے گھیری قدرتی طور پر بننے والی جھیل اور دل کش فطری مناظر کی وجہ سے غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا بھی مرکز رہا ہے۔
یاد رہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے خواتین پر ملازمتوں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ہیئر اور بیوٹی سیلون پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔