پاکستان

صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف دائر چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ حارث صاحب اجازت ہو تو مخدوم علی خان سے ایک بات پوچھوں۔ کل ہم نے ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی، ایم ایل اے کے تحت حاصل شواہد کی حیثیت ختم کر دی گئی، اب نیب کو خود وہاں سروسز لینا ہوں گی جو مہنگی پڑیں گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کل کہا تھا کہ ایم ایل اے کے علاوہ بھی بیرون ملک سے جائیدادوں کی رپورٹ آئی ہے لیکن قانون میں تو اس ذریعے سے حاصل شواہد قابل قبول ہی نہیں، نیب ترامیم کے ذریعے بین الاقوامی قانونی مدد کے ذریعے ملنے والے شواہد قابل قبول نہیں رہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ ایف بی آر کو بیرون ممالک سے اثاثوں کی تفصیلات موصول ہو جاتی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر کو ملنے والی معلومات بطور ثبوت استعمال نہیں ہوسکتیں، جس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ ملزم سے برآمد ہونے والا مواد بھی نیب نے ہی ثابت کرنا ہوتا ہے اور بیرون ملک سے لائے گئے شواہد بھی ثابت کرنا نیب کی ہی ذمہ داری ہے، عدالتیں شواہد کو قانونی طور پر دیکھ کر ہی فیصلہ کرتی ہیں چاہے اپنے ملک کی کیوں نہ ہوں، سوئس عدالتوں نے آصف زرداری کے خلاف اپنے ملک کے شواہد تسلیم نہیں کیے تھے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سوئس مقدمات تو زائدالمعیاد ہونے کی وجہ سے ختم ہوئے تھے عدم شواہد پر نہیں، جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ اٹارنی جنرل نے سوئس حکام سے معاونت کس قانون کے تحت مانگی تھی کوئی نہیں جانتا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا قانون میں ملزم کے ساتھ شکایت کنندہ کے حقوق بھی ہیں؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ آئین ملزم کو شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے شکایت کنندہ کا ذکر نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہمارے فوجداری نظام انصاف میں سزا کا تناسب 70 فیصد ہے اور 70 فیصد مقدمات میں بھی آگے جاکر سٹیلمنٹ ہو جاتی ہے، استغاثہ اور تفتیش کا آپس میں تعاون نہیں، ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ قتل کے مقدمات میں 40 فیصد شکایت کنندگان کو انصاف نہیں ملتا، انصاف فراہم کرنا ریاست کا فریضہ ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بہت سے مقدمات میں شکایت کنندگان خود ہی ملزم کو پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں، انکار کی بڑی وجہ گواہان کی شکایت کنندگان کو بریت کے بعد ملزمان کی جانب سے نشانہ بنایا جانا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بعض اوقات پراسیکیوشن کی ناکامی کی وجہ شکایت کنندگان بھی ہوتے ہیں۔

خواجہ حارث کے دلائل
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب کی زیر حراست ملزم کو دباؤ میں لاکر پلی بارگین کرنے کا تاثر موجود ہے۔ وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ درست ہے کچھ مثالیں موجود ہیں جن میں دباؤ ڈال کر پلی بارگین کیا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھ میں ایک کیس کی مثال موجود ہے، اس کیس میں پلی بارگین کرکے رقم طے کی گئی بعد میں تمام اثاثوں کا دوبارہ تخمینہ لگایا گیا، بتائیں پلی بارگین کی نیب شق میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ترامیم کے بعد پلی بارگین کے تحت اقساط میں وصول کی گئی رقم بھی واپس کرنا ہوگی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستان کے قانون میں بیرون ملک سے قانونی معاونت کی گنجائش کتنی ہے؟

وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ پاکستانی قانون میں بیرون ملک سے حاصل قانونی معاونت کی زیادہ اہمیت نہیں رکھی گئی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ مئی 2023 سے پہلے نیب ریفرنسز کا واپس ہونا سنجیدہ معاملہ ہے، ہمارے پاس نیب ریفرنس واپس ہونے سے متعلق تفصیلات پر مبنی فہرست ہے لیکن بات یہ ہے کہ ہم نے آج کیس ختم کرنا ہے اور ہمارے پاس جمعے کی وجہ سے آج ساڑھے 12 بجے تک کا وقت ہے۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو ساڑھے بارہ بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ پیر کو وہ کچھ وقت لیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پیر تک وقت نہیں تحریری طور پر معروضات دے دیں ہم دیکھ لیں گے۔

دوران سماعت، نیب ترامیم کے خلاف کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی جمہوری نظام آئین پاکستان کا مرکزی جزو ہے، کہا جا رہا ہے ایک پارلیمنٹ نے اپنے اور اہل خانہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے قانون سازی کی، مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے زور لگا لگا کر نیب ترامیم میں غلطی ڈھونڈی جا رہی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ملک میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کو اپنے اپنے طریقے سے چلنے دیں، اس وقت عام انتخابات سر پر ہیں۔ میرے ذہن میں ایک ہی حل ہے کہ نئی پارلیمنٹ آکر ترامیم کو ختم کر دے ورنہ ایسے تو پورا نظام ہی ختم  جائے گا۔ حل تو صرف یہی ہے ایسے لوگوں کو دوبارہ ووٹ ہی نہ دیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ نیب قانون کا کاروباری شخصیات کے خلاف غلط استعمال کیا گیا، میرے پاس ایسے کاروباری شخصیات کے نام بھی موجود ہیں جن کو نقصان پہنچایا گیا، ایسے نہیں ہونا چاہیے کسی اکاؤنٹنٹ کو بٹھا کر 10 روپے کی غلطی نکالی جائے۔ قانون کے مطابق کاروبار کرنے والی شخصیات کے خلاف نیب قانون کا غلط استعمال کیا گیا، کسی جرم کی نوعیت تبدیل کرنا درست نہیں، کرپشن معاشرے اور عوام کے لیے نقصان دہ ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ایسے لگ رہا ہے کہ زور لگا لگا کر تھک گئے کہ نیب ترامیم میں غلطی نکلے لیکن نہیں مل رہی، کچھ چیزوں کو فطرت پر بھی چھوڑیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کیس ایک چٹھی پر بھی چلا سکتے تھے لیکن بنیادی حقوق کا معاملہ تھا اس لیے سن رہے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹرین عوام کا امین ہوتا ہے، سب سے بڑی خلاف ورزی تو یہ ہے کہ کیسے ایک شخص اپنی مرضی سے پارلیمنٹ چھوڑ کر چلا گیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ یہ سیاسی فیصلہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھنا ہے یا چھوڑنا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کا فورم موجود تھا، کیسے اپنی حلقے کی نمائندگی چھوڑ دی؟ درخواست گزار کی نیک نیتی کیا ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں، بدنیت لوگوں کے ہاتھ میں اتھارٹی دی جاتی رہی، کئی لوگوں کے پاس منشیات اور دیگر ذرائع سے حاصل داغدار پیسہ موجود ہے، داغدار پیسے کا تحفظ کر کے سسٹم میں بہت سے لوگوں کو بچایا جاتا ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ منصفانہ اور فیئر معاشرہ قائم کرے، ریاست نے یقینی بنانا ہے کہ مجرمان آزاد نا گھومیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ معاشی مواقع چھیننے کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، معیشت کے شعبے کو سیاسی طاقتوروں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے، بنیادی حقوق کے براہ راست تعلق کا سوال اٹھا رہے ہیں، لوگ اپنے نمائندے کسی مقصد سے منتخب کرتے ہیں اور وہ مقصد آئین میں درج ہے، دنیا بھر میں آمدن سے زائد اثاثوں کے اصول کا استعمال کم کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ وہاں براہ راست ثبوتوں کو دیکھا جاتا ہے، ماضی میں نیب قانون کا غلط استعمال کیا جاتا رہا، قانون سازی کے ذریعے سرکاری افسران کو نیب سے تحفظ فراہم کیا گیا۔ آڈیٹر جنرل اہم آئینی ادارہ ہے، مضبوط آڈیٹر جنرل آفس صوبوں کے اکاؤنٹس کو بھی دیکھ سکتا ہے۔ نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی لیکن نیب ترامیم سے بلاواسطہ حقوق متاثر ہونے کا پہلو ضرور ہے، بری طرز ہوگی یا مجرمانہ معاشرہ ہوگا تو لوگ چلے جائیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ نیب کو ترامیم کے ذریعے کیپچر نہیں کر لیا گیا؟ کیا جو نیب کا ملزم ہے وہ خود قانون بنائے گا؟ کیا نیب ملزم خود قانون بنا کر بتائے گا کہ اس کے خلاف کارروائی کیسے ریگولیٹ کی جائے؟ کیا ذاتی فائدے کے لیے بنائے گئے قانون کو کالعدم کر سکتے ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان اگر اپنے فائدے کے لیے قانون بنا بھی لے تو عدالت کیا کر سکتی ہے؟

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت پانچ ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث کو تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم دے دیا جبکہ پانچ ستمبر کو اٹارنی جنرل سے دلائل بھی طلب کر لیے۔

سپریم کورٹ میں نیب کی رپورٹ
دوران سماعت، احتساب بیورو نے نیب ترامیم سے فائدہ حاصل کرنے والے ملزمان سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی۔

نیب ترامیم سے رواں سال فائدہ اٹھانے والوں کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش کی گئی جس کے مطابق رواں سال 30 اگست تک 12 ریفرنس نیب عدالتوں سے منتقل ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں۔

خورشید انور جمالی، منظور قادر کاکا اور خواجہ انور مجید کے نیب مقدمات منتقل ہوئے۔ جعلی اکاؤنٹس کیس کے مرکزی ملزم حسین لوائی کا کیس بھی نیب کے دائرہ کار سے نکل گیا۔

آصف زرداری کے خلاف پارک لین ریفرنس احتساب عدالت نے ترامیم کے بعد واپس کر دیا جبکہ اومنی گروپ کے عبدالغنی مجید کے خلاف نیب کیس بھی احتساب عدالت سے واپس ہوگئے۔

رواں سال مجموعی طور پر 22 مقدمات احتساب عدالتوں سے واپس ہوئے جبکہ ترامیم کی روشنی میں 25 مقدمات دیگر فورمز کو منتقل کر دیے گئے۔

احتساب بیورو کی جانب سے رپورٹ سپریم کورٹ میں جاری نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جمع کرائی گئی۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button