صعنت و تجارت

انٹرنیشنل یوتھ ڈے 2023ء نوجوان قیمتی اثاثہ، ملکی ترقی کیلئے انہیں جدید تقاضوں کے مطابق تیار کرنا ہوگا!

پاکستان سمیت دنیا بھر میں 12 اگست کو نوجوانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد نوجوانوں کی رہنمائی کرنا، ان کے مسائل حل کرنا اور انہیں درست سمت دکھانا ہے تاکہ وہ دنیا میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔

پاکستان میں نوجوان آبادی کی شرح 65 فیصد ہے جو یقینا ایک بڑی تعداد ہے جس سے فائدہ اٹھا کر ملک کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ ہمارے ہاں نوجوانوں کے مسائل کیا ہیں اور ریاست ان کے حل کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے، اس کے بارے میں جاننے کیلئے ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو مدعو کیا گیا۔

اس فورم میں یوتھ افیئرز ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر آصف طفیل کو حکومتی نمائندہ کے طور پر مدعو کیا گیا، بار بار رابطہ کرنے پر ان کی جانب سے یہی بتایا جاتا رہا کہ تھوڑی دیر میں آرہے ہیں۔

 

ان کے انتظار میں ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے فورم شروع کیا گیا مگر وہ نہیں آئے اور ان کے سٹاف کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ محکمہ کے سیکرٹری کے ساتھ کہیں چلے گئے ہیں۔ ڈاکٹر آصف طفیل کا یہ رویہ افسوسناک ہے اور حکومتی ترجیحات کا عکاس ہے۔ ’’نوجوانوں کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

آمنہ افضل

(ویمن رائٹس ایکٹیوسٹ )

ہماری 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جسے وسائل کی کمی و دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ نوجوان آبادی والے ممالک میں ہمارا 5 بڑے ممالک میں ہوتا ہے جو اللہ کی رحمت ہے۔ 30 برس سے کم عمر فراد 65فیصد جبکہ 15 سے 29 برس عمر کی تعداد 15 فیصد ہے۔

یہ نوجوان توانائی سے بھرپور ہیں، ان میں کام کا جذبہ اور آگے بڑھنے کی لگن ہے مگر بدقسمتی سے درست سمت اور رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ چیلنجز کا شکار ہیں۔ افسوس ہے کہ 70 فیصد طلبہ میٹرک کے بعد تعلیم جاری نہیں رکھتے۔

یہ بڑا المیہ ہے جو ہمارے مستقبل میں ایک سنگین مسئلے کی شکل اختیار کر لے گا۔ بدقسمتی سے 2 کروڑ سے زائد بچے سکول نہیں جاتے، یہ ہمارا مستقبل ہیں جو اپنے اس بنیادی حق سے محروم ہیں۔ یہ بچے مزدوری کر رہے ہیں، سڑکوں پر بھیک مانگ رہے ہیں ۔

چند برس بعدیہی بچے، نوجوانوں کی فہرست میں شامل ہوںگے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بغیر سمت ، بغیر ہنر اور بغیر تعلیم کے، نوجوانوں کی یہ بڑی آبادی ملکی مسائل میں کس طرح اضافہ کرے گی۔یہ لمحہ فکریہ ہے جس پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

آئین کے آرٹیکل 25(A) کے تحت مفت اور لازمی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے، اس پر صحیح معنوں میں عمل ہونا چاہیے۔ ہمارا تعلیمی نظام پرانا ہوچکا ہے، اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ دنیا میں ہر روز جدت آرہی ہے، اسے مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی نصاب کو تیار اور تعلیمی نظام کو اپ ڈیٹ کیا جائے۔

افسوس ہے کہ تعلیمی ادارے بچوں کو گریڈز کی ریس میں دوڑاتے ہیں جبکہ انہیں دیگر صحت مند سرگرمیوں سے دور رکھا جاتا ہے جس سے ان کی شخصیت صحیح معنوں میں نکھر نہیں پاتی۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ طلبہ کو کونسلنگ کی سہولیات میسر نہیں۔

انہوں نے تعلیم کچھ اور حاصل کی ہوتی ہے جبکہ کام کچھ اور کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ غور طلب ہے جو ہمارے پورے سسٹم پر کئی سوالات اٹھا رہا ہے۔ کیا ہم دوران ڈگری طلبہ کو وہ سکلز نہیں دیتے جو انہیں پریکٹیکل فیلڈ میں چاہیے؟ کیا طلبہ کی کونسلنگ نہیں کی جاتی؟ کیا طلبہ، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے درمیان خلاء ہے؟

کیا ہم یوتھ کی ضروریات اور مارکیٹ ڈیمانڈز کو نہیں سمجھ پا رہے؟ ایسا لگتا ہے کہ ہم بغیر پالیسی کے معاملات چلاتے جا رہے ہیں جس میں مسائل کا شکار نوجوان ہو رہے ہیں اور نقصان ملک کا ہورہا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے تو پھر 65 فیصد آبادی کو نظر انداز نہیں کرسکتے، اگر کیا تو یہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا جس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ جامع حکمت عملی بنا کر آگے بڑھا جائے۔

نوجوانوں کو ہنرمند بنایا جائے۔ طلبہ کے لیے نئی سکلز پر مبنی شارٹ کورسز کروائے جائیں۔ ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے کیونکہ ان تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں نوجوان مفت کورسز سے محروم ہیں۔ ہنر نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر نوجوان بے روزگار ہیں۔ انہیں ہنر کی تعلیم دینا ضروری ہے ورنہ یہ غلط کاموں میں ملوث ہو کر ملک کیلئے بڑا مسئلہ کھڑا کر سکتے ہیں۔

حکومت کو ایسی سکیمز بنانی چاہئیں جس سے یوتھ کو نہ صرف ہنر اور تعلیم ملے بلکہ ان کا روزگار بھی یقینی ہو۔ انہیں اس طرح تیار کیا جائے کہ وہ ملکی اور عالمی ڈیمانڈز پر پورا اتر سکیں۔ اس طرح ملک سے نہ صرف بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا بلکہ یہ نوجوان ملکی تعمیر و ترقی میں بھی اپنا بہتر کردار ادا کرسکیں گے۔

حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی اداروں کا معیار مزید بہتر کرے۔ انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، وہاں وہ تمام سہولیات دی جائیں جو عالمی معیار سے مطابقت رکھتی ہوں۔ سب کیلئے تعلیم مفت ہونی چاہیے مگر یہ معیاری ہو۔ تعلیمی اداروں کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ ہراسمنٹ کا ہے۔ طالبات کو ہراساں کرنے کے جو افسوناک واقعات سامنے آرہے ہیں اس سے طالبات، ان کے والدین اور معاشرے میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔

والدین اپنی بیٹیوں کو تعلیم کیلئے بھیجنے سے گھبرا رہے ہیں ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس سے لڑکیوں کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں لہٰذا انہیں ہراسمنٹ سے پاک ماحول فراہم کیا جائے جو صرف تعلیمی اداروں میں ہی نہ ہو بلکہ کام کی جگہ بھی ہراسمنٹ سے پاک ہونی چاہیے،ا س کیلئے تعلیمی اداروں اور کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کمیٹیوں کا قیام یقینی بنایا جائے۔

یہ قانون کے مطابق لازمی ہے مگر اس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم اپنا مستقبل سنوارنا چاہتے ہیں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں تو نوجوانوں کی سرپرستی کرنا ہوگی۔

ارباز بٹ

(رکن یوتھ پارلیمنٹ پاکستان )

ملک کی 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے لہٰذا یہ ہمارا حق ہے کہ ہمیں ہر شعبے میں آگے آنے کا موقع دیا جائے، لیڈنگ رول دیا جائے اور ہماری صلاحیتوں کو برووے کار لاتے ہوئے ملک کی تعمیر و ترقی کا خواب پورا کرنا چاہیے مگر بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے نوجوانوں کو صرف اپنے فائدے کیلئے استعمال کیا، انہیں ایمپاور نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود نوجوان منظم نہیں اور نہ ہی ان کی کوئی آواز ہے۔

پارلیمان میں نوجوانوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم انہیں کتنا سنجیدہ لے رہے ہیں اور کتنا رول دینے کے لیے تیار ہیں لہٰذا آج کے اس فورم کے ذریعے ارباب اختیار سے میرا مطالبہ ہے کہ نوجوانوں کو اسمبلیوں میں نمائندگی دی جائے۔ جس طرح خواتین کیلئے اسمبلی میں نشستیں مختص ہیں،ا یسے ہی نوجوانوں کا کوٹہ بھی مقرر کیا جائے۔

اس سے نوجوانوں کو درست نمائندگی ملے گی اور وہ اپنے مسائل خود اجاگر کر سکیں گے اور ان کیلئے حل کیلئے قانون سازی سمیت ہر ممکن کام کر سکیں۔ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ سوچ کا ہے ہم کام کو برا سمجھتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ یہاں کام کرنے والے کی عزت نہیں ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں خاکروب کی بھی عزت ہے ،اسے تمام بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوتے ہیں اور تنخواہ بھی اتنی ہوتی ہے جس میں اچھی زندگی گزاری جاسکے۔ اس سب میں ایک اہم چیز یہ ہے کہ وہاں کا خاکروب بھی سکلڈ ہے۔

اس کے پاس ہنر کے ساتھ ساتھ مسئلہ حل کرنے کی مہارت و دیگر سکلز موجود ہیں۔ ہمارے ہاں یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ بھی بنیادی سکلز سے محروم ہوتے ہیں جو بڑا المیہ ہے۔ اس کے علاوہ الارمنگ بات تو یہ ہے کہ ہماری 78 فیصد یوتھ پڑھنا لکھنا نہیں جانتی۔ یہ صورتحال تشویشناک ہے، اگر ان کی رہنمائی نہ کی گئی تو یہ آنے والے وقت میں ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج بن جائیں گے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے ہاں نوجوان آبادی زیادہ ہے۔

جرمنی کے پاس یوتھ نہیں، انہیں نوجوان چاہئیں۔ ہمارے پاس یوتھ تو ہے مگر ان میں سکلز، قابلیت اور مہارت کی کمی ہے۔ اگر ہم یوتھ کو سکلڈ بنا لیں تو یہ دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا سکتے ہیں۔ وہ بیرون ملک جا کر وہاں سے پاکستان رقم بھجیں گے جس سے ملکی معیشت میں استحکام آسکتا ہے۔

اسی طرح جو پاکستانی جدید سکلز حاصل کرکے یہاں سے آن لائن کام کریں گے وہ بھی ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کریں گے، اس سے خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔ ہمارے نظام تعلیم میں جو مسائل ہیںا نہیں دور کرنا ہوگا۔ ہمیں پورے نظام کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس میں جدت لانا ہوگی۔ طلبہ یونینز ’’یوتھ انڈسٹری‘‘ تھی جہاں ان کی تربیت ہوتی تھی، وہ منظم ہوتے تھے، اپنے مسائل کے لیے آواز اٹھاتے تھے اور حل کیلئے کام کرتے تھے مگر افسوس ہے کہ حکومت کی جانب سے طلبہ تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی۔

ان سے ان کا بنیادی حق چھین لیا گیا جو افسوسناک ہے۔ بعدازاں طلبہ یونینز کی بحالی کا قانون منظور ہوا، سندھ میں طلبہ یونینز موجود ہیں مگر وہ یوتھ سوسائٹیز کی طرح ہی چلائی جا رہی ہیں۔ بہالپور یونیورسٹی سکینڈل پر سب جگہ بہت باتیں ہو رہی ہیں۔

ا س میں شرمناک چیزیں سامنے آرہی ہیں، میرے نزدیک اگر طلبہ یونینز بحال اور فعا ل ہوتی تو ایسا افسوسناک واقعہ رونما نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نوجوان خود ایک دوسرے کے مسائل سمجھتے ہیں، وہ منظم ہوتے، طاقتور ہوتے تو کسی میں ان کو بلیک میل کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ مطالبہ ہے کہ طلبہ یونینز کو فوری طور پر بحال کیا جائے اور انہیں فعال بنایا جائے۔

ان کو یونین سازی سے دور رکھنا انہیں اپنے بنیادی انسانی حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ نوجوانوں کو ایمپاور کرنے کیلئے ضروری ہے کہ یوتھ کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس میں خواتین کو بھی نمائندگی دی جائے۔ اسمبلیوں میں خاتون اراکین نے اچھا پرفارم کیا، وہ معاملات کو بہتر انداز میں لے کر چلتی ہیں۔

یوتھ کمیشن کا ہر ضلع میں آفس ہونا چاہیے تاکہ نوجوانوں کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل کیے جاسکیں۔ ہمارے قوانین فرسودہ ہیں، آج بھی انگریز دور کے قوانین یہاں رائج ہیں۔ ہمیںا پنے قوانین کو بہتر بنانا ہوگا۔18 ویں ترمیم کے بعد وفاق سے صوبوں کو اختیارات منتقل ہوئے مگر صوبوں نے نچلی سطح پر اختیارات منتقل نہیں کیے۔

آج بھی ہمارے ہاں بلدیاتی نظام موجود نہیں ہے۔ بلدیاتی نظام تو سیاسی نرسری ہوتا ہے۔ نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور انہیں سیاسی طور پر متحرک کرنے کیلئے مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرنا چاہیے۔ اس میں نوجوانوں کو صحیح معنوں میں آگے آنے کے مواقع فراہم کیے جائیں ،انہیں پروموٹ کیا جائے تاکہ وہ ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

ذیشان حیدر

(انٹرپرینیور)

میں نے 2017ء میں بی ایس آئی ٹی کیا اور ملازمت کی تلاش شروع کر دی۔پھر ہم چند دوستوں نے مل کر ایک سافٹ ویئر ہاؤس بنایا مگر 6ماہ میں ہی بند کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دوران ڈگری وہ سکلز ہی نہیں سکھائی گئی جو پریکٹیکل فیلڈاور بزنس میں ضروری تھی۔ بہرحال ارادہ کیا کہ اب سکلز حاصل کرنی ہیں جس کے لیے ملازمت اختیار کی۔

چند برس کام سیکھا اور پھر کرونا وباء آگئی۔ اس سے سب کی مشکلات میں اضافہ ہوا مگر یہ مشکل وقت میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ بن گیا۔ اس وقت آن لائن لرننگ کلچر کو فروغ ملا۔ میں نے آن لائن کورسز میں داخلہ لیا اور سیکھنا شروع کر دیا۔

میں نے حکومت کے جاری کردہ منصوبے ’ای روزگار‘ سے شارٹ کورسز کیے، جو ٹیکنیکل ڈومین کے تھے، ان کورسز سے مجھے سمت مل گئی۔ میں نے وہ مہارت سیکھ لی جو مجھے عملی زندگی میں چاہیے تھی۔ مجھے مارکیٹ اور کام کی سمجھ آگئی۔

آج میں روزگار لینے نہیں بلکہ دینے والوں کی صف میں شامل ہوں۔ اس وقت میرے پاس 30 سے زائد افراد کام کر رہے ہیں جنہیں اچھی تنخواہ دے رہا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ ہمارا جو استحصال ہوا، ان کا نہ ہو۔ میرا نوجوانوں کو یہ پیغام ہے کہ ہنر حاصل کریں۔

نوجوانوں کو چاہیے کہ ’ای روزگار‘، ڈیجی سکلز جیسے حکومتی اقدامات سے فائدہ اٹھائیں، مہارت حاصل کریں، فری لانسنگ کی دنیا میں قدم رکھیں اور اچھا روزگار کمائیں۔ ایک بات یاد رکھیں کہ شارت کورسز اپنی جگہ مگر ڈگری بہت اہم ہے۔ جب آپ ڈگری حاصل کرتے ہیں تو آپ کا علم بڑھتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہنر شامل ہوجائے تو آپ کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

میٹرک کے بعد اگر آپ شارٹ کورس کرکے پیسہ کمانے کی کوشش کریں گے تو ایک خاص حد تک ہی جاسکیں گے، تعلیم کا نہ ہونا آپ کی زندگی میں آگے چل کر رکاوٹ بن سکتا ہے لہٰذا تعلیم اور ہنر دونوں پر توجہ دیں۔

اپنے سینئرز اور والدین سے رہنمائی لیں۔ میرا ان تمام افراد جو اس وقت کامیاب ہیں، سے مطالبہ ہے کہ اپنے ارد گرد لوگوں کی رہنمائی کریں اور انہیں درست سمت دکھائیں۔ ہمارے نوجوان آن لائن کما رہے ہیں مگر انہیں پاکستان رقم کی منتقلی میں مسئلہ ہوتا ہے۔

یہاں پے پال نہیں ہے جس کے باعث بیرون ملک بزنس رجسٹر کروانا اور اکاؤنٹ کھلوانا پڑتا ہے۔ کلائنٹ کی طرف سے وہاں ڈالرز میں رقم منتقل کی جاتی ہے اور جتنی ضرورت ہوتی ہے اتنی رقم ہم پاکستان منگواتے ہیں۔

حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ فری لانسرز مشکل حالات میں ملک میں پیسہ لا رہے ہیں، اگر حکومت ہمارے بینک اکاؤنٹ اور رقم کی منتقلی کے مسائل حل کرے تو یہاں ڈالرز آسکتے ہیں جس سے ملکی معیشت کو استحکام ملے گا۔ ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں مارکیٹ کے مطابق طلبہ کو تیار نہیں کیا جاتا۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ ہائرنگ کا طریقہ کار نرم کریں، ہائرنگ کے بعد مناسب تربیت دیں اور ایسے کورسز لازمی کروائیں جو نوجوانوں کی عملی زندگی میں کام آسکیں۔

v

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button