پاکستان

صحافیوں کو ہراساں کرنیکا کیس؛ وہ کون پراسرار ہے جو ملک چلا رہا ہے؟ چیف جسٹس

اسلام آباد: صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ایف آئی کی جانب سے نوٹسز بھجوانے کے کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ کون پراسرار ہے جو ملک چلا رہا ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔

سماعت شروع ہوئی تو عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون نے کل کا حکم نامہ پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ عامر میر کیس میں عدالتی احکامات پر عمل ہوا یا نہیں حکومت سے پوچھا جاٸے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کس حکومت سے پوچھیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت سے پوچھیں۔

 

چیف جسٹس نے سابق ایڈوکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پھر آرڈر بھی آپ کے خلاف پاس ہوگا، آپ کے مٶکل کیا ایک وزیر ہیں؟ جہانگیر جدون نے کہا کہ جی وہ وزیر ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا وہ بطور وزیر بے یارو مددگار ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ جی وہ ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پھر وہ کون پراسرار ہے جو ملک چلا رہا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ سب کو پتہ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے  کہ ایسی باتیں مت کریں یہ کورٹ ہے اکھاڑہ نہیں۔

صحافیوں کی جانب سے متفرق درخواست دائر نہ ہونے پر چیف جسٹس نے اظہار تشویش کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب تک تحریری طور پر ہمارے سامنے کچھ نہیں آئے گا ہم آرڈر کیسے جاری کریں، اب سپریم کورٹ میں تین رکنی کمیٹی ہے وہ طے کرتی ہے کہ درخواست آنے کے بعد طے کرے گی، کیا صحافیوں نے کوئی نئی درخواست دائر کی؟ صحافی عقیل افضل نے بتایا کہ ہمیں ابھی تک فہرست ہی نہیں ملی کن صحافیوں کے خلاف کارروائی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب کل ہم نے محتاط رہتے ہوئے کوئی آرڈر پاس نہیں کیا، کوئی بندہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں، ہم پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو دیکھ رہے ہیں، اس قانون سے متعلق کیس براہ راست نشر ہوا تھا پورے ملک نے دیکھا، ہم توقع رکھتے تھے آج صحافی کوئی سی ایم اے فائل کرتے، ہمیں کوئی کاغذ تو دکھائیں ہم اس کیس میں آگے کیسے بڑھیں۔

حیدر وحید ایڈوکیٹ نے دلائل میں کہا کہ وفاقی حکومت کو ہدایت کی جائے کہ اسٹیک ہولڈرز سے مل کر سوشل میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق بنائے، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا عدالت ایسا حکم جاری کر سکتی ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے کوئی قانون نہیں ہے، جو قانون ہے وہ صرف فوجداری کارروائی کیلئے ہے، یوٹیوب پر ہتک عزت قانون تو لاگو ہوتا ہے لیکن کوئی ریگولیٹری قانون نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت قانون کی تشریح کر سکتی ہے جب قانون ہی نہیں تو کیا کریں؟ عدالت صرف اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بیٹھنے کی درخواست کر سکتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے کل عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی، باضابطہ درخواست تو آئے ایسے حکم کیسے جاری کر سکتے ہیں۔

صدر پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن کے باوجود نوٹسز واپس نہیں ہوئے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جو یقین دہانی کرائی تھی اس پر قائم ہوں، نوٹس واپس کرنے کا طریقہ کار ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت ایسے سوموٹو لے تو بھی صحافی اعتراض کریں گے، مزید کیس کیسے آگے چلائیں یہ بتا دیں۔

مزید پڑھیں: ایف آئی اے کو صحافیوں کیخلاف نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم

 

 

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کا نوٹیفیکیشن ہمارے سامنے ہے نہ ہی کسی نوٹس کی کاپی، لسٹ ملی یا نہیں جنہیں نوٹسز ملے ہیں ان کے تو جمع کرائے جا سکتے تھے۔ صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ میں بھی سمجھ رہا تھا کہ کوئی درخواست آئے گی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا کوئی ایف آئی اے میں پیش ہوا ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جے آئی ٹی کو آج تک کے لیے روکا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی تحریری مواد کے بغیر اٹارنی جنرل کو درخواست کر سکتے ہیں حکم نہیں دے سکتے۔

صدر پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ نے عدالت سے کہا کہ 10منٹ کا وقت دیں تو متفرق درخواست دائر کر دیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ متفرق نہیں آئینی درخواست ہونی چاہیے جو معاملہ کمیٹی میں جانا ہے۔

صحافی مطیع اللہ جان نے عدالت میں کہا کہ الیکشن سے پہلے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو کہنا ہے لکھ کر دیں زبانی بات نہیں سنیں گے۔ مطیع اللہ جان نے کہا کہ اداروں کو جلدی کس بات کی ہے الیکشن کے بعد ہمیں بلا لیں۔

صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ کل عدالتی سماعت کے بعد تاثر ملا جیسے نوٹسز واپس ہوگئے ہیں لیکن آج بھی کوئی نہیں مان رہا کہ غلط خبر چلی اور نوٹس واپس نہیں ہوئے۔ صدر پی ایف یو جے افضل بٹ نے عدالت میں پیش ہوکر کہا کہ ایف آئی اے نے تنقید اور ٹرولنگ کو مکس کر دیا ہے، میڈیا کو ٹارگٹ کرنے کیلئے یہ سب کیا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے نوٹس کی شکل ہی نہیں دیکھی تو کیا حکم جاری کریں، ہر آدمی وہی بات کر رہا ہے لیکن نوٹسز ہمیں دکھا رہے ہیں نہ درخواست دی جا رہی ہے، آپ لوگ شاید صحافیوں کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں، صحافیوں کو کوڑے بھی لگے اور جیل بھی گئے لیکن آپ نوٹسز پر اعتراض کر رہے ہیں، ہمیں بھی نوٹس ہوئے تھے ہم نے کوئی حکم امتناع نہیں لیا تھا۔

افضل بٹ نے جواب دیا کہ آپ کو نوٹس ہوا تو ہم اس کے خلاف درخواست گزار تھے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا صحافی جھوٹ لکھ سکتا ہے؟ صدر پی ایف یو جے نے جواب دیا کہ صحافی کیلئے جھوٹ لکھنا جرم ہے۔

مطیع اللہ جان نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف کارروائی کو انتخابات کے بعد تک مؤخر کیا جائے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ اس دوران احتیاط سے رپورٹنگ کریں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی صرف صحافیوں کے بیانات قلمبند کرنے ہیں جنہوں نے ٹویٹس کے، بس اتنا کام ہے؟

سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ایف آئی اے کو نوٹسز کا کیس فروری کے آخر تک ملتوی کر دی۔

سماعت کا حکم نامہ

اٹارنی جنرل کے مطابق وہ ابصار عالم پر حملے کا ذکر کرنا بھول گئے تھے جس پر عدالت نے ابصار عالم پر حملے کی تحقیقاتی رپورٹ بھی مانگ لی ہے جبکہ سپریم کورٹ نے پی ایف یو جے کو مقدمہ میں فریق بننے کی اجازت دے دی۔

پریس ایسوسی ایشن میڈیا کی آزادی اور موجودہ حالات پر درخواست دائر کرنا چاہتی ہے لہٰذا پریس ایسوسی ایشن کی درخواست ملنے پر رجسٹرار آفس فوری نمبر لگائے اور رجسٹرار آفس درخواست ملتے ہی ججز کمیٹی کے سامنے پیش کرے۔

حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے انتخابات تک صحافیوں کو جاری نوٹسز پر کارروائی مؤخر کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، الیکشن کے بعد دوبارہ نوٹسز جاری کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کی سماعت میں صحافیوں پر تشدد کے خلاف دو ہفتوں میں رپورٹ طلب کی ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button