بین الاقوامی

طالبان نے بشام حملے میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کا دعویٰ مسترد کردیا

کابل: افغان وزارت دفاع نے پاکستان کے ان دعوؤں کو مسترد کردیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ ماہ بشام میں چینی انجنیئروں پر حملے میں افغانستان کے شہری ملوث تھے۔

خبرایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی وزارت قومی دفاع کے ترجمان مفتی عنایت اللہ خورازمیم نے بیان میں کہا کہ افغان شہری اس طرح کے کسی حملے میں ملوث نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات پر افغانستان پر الزامات عائد کرنا معاملے کی حقیقت سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش ہے اور ہم اس کو سختی سے رد کرتے ہیں۔

مفتی عنایت اللہ خورازمیم نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے علاقے میں پاک فوج کی سخت سیکیورٹی کے حصار میں چینی شہریوں کا قتل سے پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیز کی کمزوری ظاہر ہو رہی ہے۔

انہوں نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہ کابل پر الزام عائد کرکے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کہا کہ ہم اس تاثر کو سختی سے رد کرتے ہیں، امارت اسلامی نے اس معاملے پر چین کو یقین دلایا ہے اور وہ حقیقت سمجھ چکے ہیں کہ افغان شہری اس طرح کے کسی معاملے میں ملوث نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ مارچ میں بشام میں چینی انجینئرز کی گاڑی پر خودکش حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں پاکستانی ڈرائیور سمیت 6 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور مذکورہ انجینئرز شاہراہ قراقرم میں تعمیر ہونے والے ڈیم کا کام کر رہے تھے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجرجنرل احمد شریف نے پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ بشام میں چینی انجینئروں کی گاڑی پر خودکش حملے کی منصوبہ بندی ہمسایہ ملک افغانستان میں ہوئی تھی اور خودکش بمبار افغان شہری تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلسل مطالبات اور سے شواہد دیے جانے کے باوجودکالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان سے بدستور سرگرم ہے، پاکستان نے مصدقہ ثبوت فراہم کیے تھے لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا سرا بھی افغانستان میں نکل سکتا ہے۔

افغان حکمران طالبان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں حالیہ مہینوں میں سردمہری آئی ہے، کیونکہ اسلام آباد کا مطالبہ ہے کہ افغان حکومت پاکستان کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے لیکن اس پر کچھ نہیں کیا جاتا اور مارچ میں پاکستان نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف فضائی کارروئی بھی کی تھی۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button