ایران حجاب قانون میں تبدیلی پر غور کرنے پر مجبور
تہران: ایران نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ملک میں رائج حجاب قانون میں تبدیلی پر غور کر رہے ہیں جس کے خاتمے کے لیے ملک بھر میں مھسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد سے پُرتشدد احتجاج جاری ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کے اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ سر اوور بام ڈھانپنے سے متعلق ’’حجاب قانون‘‘ کا عدلیہ اور پارلیمان ازسرنو جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا اس قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
محمد جعفر منتظری نے میڈیا کو مزید بتایا کہ اس سلسلے میں ایک جائزہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس نے پارلیمان کے ثقافتی کمیشن سے بھی ملاقات کی ہے اورایک یا دو ہفتوں میں نتائج سامنے آ جائیں گے
تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا قانون کو تبدیل کیا جا رہا ہے یا مکمل طور پر ختم کردیا جائے گا۔
گزشتہ روز ہی ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ایران کا آئین اور جمہوری نظام اسلام کی بنیادی تعلیمات سے جڑا ہوا ہے لیکن آئین کو نافذ کرنے کے ایسے طریقوں پر غور کیا جا سکتا ہے کہ جو سخت یا غیر لچکدار نہ ہوں۔
ایران میں حجاب قانون کے خلاف پُرتشدد مظاہرے ستمبر سے جاری ہیں جب ایک کرد نوجوان لڑکی مھسا امینی اسی قانون کی خلاف ورزی پر پولیس کی حراست میں مبینہ تشدد سے ہلاک ہوگئی تھی۔
ایران میں ان مظاہروں میں اب تک 400 کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 46 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ یہ مظاہرے نہ صرف ایران بلکہ دنیا بھر میں پھیل گئے اور ایرانی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
عالمی قوتوں اور بین الااقوامی اداروں نے بھی ایران کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور ایران سے مظاہرین پر تشدد کو روکنے اور قانون میں نرمی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
دوسری جانب ایران کا مؤقف ہے کہ پمارے پاس ملک بھر میں تیزی سے پھیلنے والے ان پُرتشدد مظاہروں کو مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہونے کے ناقابل تردید ثبوت بھی موجود ہیں۔
خیال رہے کہ ایران میں حجاب قانون انقلاب کے بعد 1983 سے نافذ العمل ہے جس میں خواتین کے لیے سر اور بالوں کو ڈھانپنے والا اسکارف پہننا لازمی قرار دیا گیا تھا