سپریم کورٹ کے آڈٹ کا معاملہ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے رجسٹرار کو طلب کرلیا
اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے عدالت عظمیٰ کے آڈٹ کے معاملے پر رجسٹرار سپریم کورٹ کو 16 مئی کوطلب کرلیا ہے، طلبی کے لیے نوٹس بھجوادیا گیا ہے، چیئرمین پی اے سی نور عالم کا کہنا ہے کہ اس پر حکم امتناعی جاری نہیں ہوسکتا اگر ہوا تو دوبارہ طلب کروں گا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نور عالم خان کے زیرصدارت منعقد ہوا جس میں دیگر معاملات کے علاوہ سپریم کورٹ کے آڈٹ کے معاملے پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ اراکین کمیٹی کے تفصیلی سوال و جواب کے بعد کمیٹی نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو طلب کرلیا ۔
چیئرمین پی اے سی کے مطابق سپریم کورٹ کے 11-2010سے 21-2020تک کے آڈٹ کا نوٹس جاری کیا گیا ہے اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو 16 مئی کو اجلاس میں طلب کیا گیا ہے۔
چیئرمین پی اے سی نور عالم خان کا کہنا تھا کہ آڈیٹرجنرل، صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس، وفاقی وزرا ، ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کا تقابلی جائزہ پیش کریں۔
کمیٹی کے رکن ڈاکٹر ملک مختار نے کہا کہ اس پر تو حکم امتناعی جاری ہو جائے گا جس پرچیئرمین پی اے سی نے جواب دیا کہ اگر حکم امتناعی آیا تو میں دوبارہ طلب کروں گا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نورعالم خان نے کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضوں پر چلنے والا غریب ملک ہے، حکومت ٹیکس لگارہی ہے، غریب آدمی کیلیے دن بدن بجلی، گھی، پٹرول سمیت دوسری اشیاء مہنگی ہورہی ہیں، وہاں غریب مررہا ہوتا ہے اور یہاں پر ہم مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں اور وہ حساب کرنے سے منع کررہے ہیں۔
لہٰذا قانون نے مجھے یہ حق دیا ہے کہ میں چاہوں گا کہ میڈیا کے سامنے آئے او عام لوگوں کو پتاچلے کہ صدر مملکت، وزیراعظم، وزرا، چیف جسٹس اور ججز کو دوران ملازمت کیا تنخواہیں و مراعات ملتی ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد کیا مراعات ملتی ہیں، کتنے پلاٹس ملتے ہیں اور کہاں پر غلطیاں ہیں تاکہ ہم اس بارے میں سفارشات دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر یا کسی اور ادارے کے ملازمین کو تنخواہوں و مراعات میں اگر کچھ غلط ہوگا تو میں کہوں گا کہ وہ وہاں کٹوتی کریں، نہ خود سے آپ تنخواہیں بڑھا سکتے ہیں اور نہ ہی مراعات دے سکتے ہیں۔
نورعالم خان نے کہا کہ قانون اور رولز اینڈ پروسیجر میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے لہٰذا اس کے تحت چلیں گے ، ہم کوئی غیر قانونی کام نہیں کررہے اور نہ ہی میرے سیاسی عزائم ہیں، آج مجھے اختیار ملا ہے تو میں اسے استعمال کررہا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان آڈٹ کے لیے اپنا ریکارڈ میرے ساتھ نہیں بلکہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان،حکومت پاکستان کے ساتھ شیئر کرے گی اور پھر اس بارے میں عوام کو بتایا جائے گا کہ کس نے کتنے پلاٹ لیے ،باہر اخراجات کتنے کیے، گاڑیاں کتنی لیں اور کس نے کیا کیا مراعات لیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پی اے سی نے سپریم کورٹ آف پاکستان کو نوٹس جاری کردیا ہے جس میں رجسٹرار کو 16 مئی کو طلب کیا ہے اور میرا نہیں خیال کہ سپریم کورٹ یا سپریم کورٹ کے ججز اس اقدام پر خفا ہوں گے کیونکہ وہ خود آئین کی پاسداری کرنے والے ہیں، اگر وہ خود رولز اور ریگولیشنز کا خیال کریں گے تو میرے خیال میں اس پر نہ تو حکم امتناعی جاری ہوسکتا ہے اور نہ سپریم کورٹ حکم امتناعی دے گی اور نہ دینا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ2010 تا 2021 کے ریکارڈ کے حوالے سے انہوں نے ایک بیان دیا تھا انہوں نے پی اے سی کو لیٹر لکھا تھا کہ اس پر دس سال سے حکم امتناعی ہے مگر 2010 اور 2023 یں بہت فرق ہے، اس لیے ہم نے پی اے سی کا اجلاس بلایا اور آڈٹ کے لیے ریکارڈ مانگا۔
ایک اور سوال کے جواب میں نورعالم خان کا کہنا تھا کہ وہ احتساب کے لیے تیار ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان نیب اور ایف آئی اے کو حکم دے سکتے ہیں کہ نور عالم خان ولد محمد اشرف خان کا 1929 سے لے کر 2023 تک کا پورا ریکارڈ فراہم کریں، میں اس سے پہلے 2013 میں بھی رکن اسمبلی بنا تھا میرے ریکارڈ سے سب سامنے آجائے گا کہ میں نے کتنے پلاٹ لیے ہیں۔
نورعالم خان کا کہنا تھا کہ میں عوام کا نمائندہ ہوں اور یہ تنخواہ دار سول سرونٹ ہیں جو حکومت اور عوام کے ملازم ہیں، بادشاہ کوئی بھی نہیں ہے۔
علاوہ ازیں پی اے سی کے اجلاس میں وزیراعظم سستا آٹا اسکیم میں20 ارب روپے کی بدعنوانی کے الزامات سامنے آنے پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو آٹا اسکیم کا آڈٹ کرنے کی ہدایت جاری کی گئی جبکہ یوریا اور گاڑیوں کے معاملے پر دو ذیلی کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں۔