بزنس

آئی ایم ایف پروگرام پر عمل کرنے میں رکاوٹیں حائل ہیں، وزیر خزانہ کا اعتراف

اسلام آباد:وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اعتراف کیا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پروگرام کے نفاذ میں رکاوٹیں ہیں لیکن انھوں نے کہا کہ حکومت 7 ارب ڈالر کے پروگرام کو مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

وزیر نے یہ بیان اس وقت دیا جب اپوزیشن کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرط کے تحت فوج اور عدلیہ کے اثاثوں کو ظاہر کرنے کے مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

یاد رہے فی الحال صرف سرکاری ملازمین کے اثاثے ظاہر کیے جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے وزارت خزانہ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ بھی قرض کی پختگی سے متعلق آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرنے میں ناکام رہی جس سے ان محکموں کی قطار مزید لمبی ہوگئی جو اب تک آئی ایم ایف کی کچھ شرائط پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور صوبے پہلے ہی آئی ایم ایف کی ڈیڈ لائن سے پیچھے ہٹ رہے تھے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے عملے نے پاکستان کا اچانک دورہ کیا۔

وزیر خزانہ نے میڈیا کیلیے دروازے بند کرنے سے قبل بتایا کہ رکاوٹیں آنے والی ہیں لیکن ہماری انتظامیہ واضح ہے کہ ہم اس پروگرام کو مکمل کریں گے اور اتحادی شراکت داروں کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ نے ان کیمرہ اجلاس منعقد کرنے کی درخواست کی ہے۔ کمیٹی کے ارکان نے وزیر کی درخواست کی مخالفت کی لیکن نوید قمر نے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے میڈیا سے کہا کہ وہ کمرہ چھوڑ دیں۔

نوید قمر نے کہا کہ یہ ایک جامع پروگرام ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں رکاوٹیں آئیں گی۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق سندھ حکومت کو قومی مالیاتی معاہدے کے نفاذ میں مسائل ہیں۔

سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے کمیٹی کو IMF پروگرام کے تحت طے شدہ شرائط پر عملدرآمد کی صورتحال پر بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ توسیعی فنڈ کی سہولت گزشتہ    IMFپروگرام کے تسلسل میں تھی تاہم سیکرٹری خزانہ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ سے یہ بات سامنے آئی کہ وزارت خزانہ بھی اس شرط کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔

بوسال نے انکشاف کیا کہ وزارت نے ستمبر کے آخر تک مقامی کرنسی کے گھریلو قرضے کے پختگی کے وقت کی اوسط حالت کو دو سال اور آٹھ ماہ تک بڑھانے کی IMF کی شرط کو پورا نہیں کیا ہے۔

سیکرٹری خزانہ نے مزید انکشاف کیا کہ پہلی سہ ماہی کے دوران صحت اور تعلیم پر 685 ارب روپے خرچ کرنے کی شرط بھی پوری نہیں کی جاسکی ہے۔ سیکرٹری خزانہ نے قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ ایف بی آر نے اپنا تین ماہ کا 2.652 ٹریلین روپے کا ہدف پورا نہیں کیا اور اس ہدف سے 89ارب روپے کم وصول کیے۔

ایک دلچسپ پیش رفت میں ان لینڈ ریونیو سروس آفیسرز ایسوسی ایشن (IRSOA) نے ایک پریس بیان جاری کیا اور ٹیکس کی کمی کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ ایف بی آر انتظامیہ کی جانب سے نام نہاد “ٹرانسفارمیشن پلان” کے نام پر جن پالیسیوں پر عمل کیا جا رہا ہے، اس کی وجہ سے ایک طرف ایف بی آر افسران میں بڑے پیمانے پر ناراضی آئی ہے اور دوسری طرف ریونیو اکٹھا کرنے کی کوششوں میں کمی آئی ہے۔

ایسوسی ایشن نے کہا کہ حالیہ بڑے پیمانے پر تبادلے اور تعیناتیاں خاص طور پر جونیئر افسران کے دور دراز علاقوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے بغیر تبادلے سے عدم اطمینان بڑھا ہے۔

قائمہ کمیٹی کے رکن عمر ایوب خان نے کہا کہ میں نے سفارش کی ہے کہ فوج اور عدلیہ کے اثاثے بھی آئی ایم ایف کی شرط کے تحت ظاہر کیے جائیں۔ عمر ایوب نے میڈیا کو ان کیمرہ بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ میری سفارش پر وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ معنی خیز انداز میں مسکرائے تھے۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ انہوں نے وزارت خزانہ سے کہا کہ وہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اخراجات اور اس کے نتیجے میں اپنے قیام کے بعد سے پاکستان میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری کی تفصیلات بتائیں۔

 

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button