بھارتی ریاستیں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کیخلاف کھڑی ہوگئیں
نئی دہلی: بھارت میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کیس زیر سماعت ہے تاہم ریاستوں نے کھل کر اس کی مخالفت کی ہے۔
بھارت کی سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمے میں حکومت نے عدالت کو بتایا کہ ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کے حوالے سے 7 ریاستوں نے جواب جمع کرادیا۔
حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں بتایا گیا ہے کہ ان سات میں سے تین ریاستوں راجستھان، آسام اور آندھیرا پردیش نے ہم جنس پرستوں کی شادی کی مخالفت کی ہے۔
عدالت کو بتایا گیا ہے کہ باقی چار ریاستوں سکم، مہارشٹرا، اترپردیش اور منی پور نے جواب جمع کرانے کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے سماعت کے بعد مرکزی حکومت نے تمام ریاستوں سے اس حوالے سے رائے طلب کی تھی۔
حکومتی وکیل جمعرات کو چیف جسٹس کی سربراہی میں کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوئے اور ریاستوں کی جانب سے موصول ہونے والے جوابات جمع کرائے۔
انہوں نے بتایا کہ راجستھان میں عوام نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کی مخالفت کی ہے جبکہ اگر ایک ہی جنس کے دو لوگ ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کرلیں تو اسے غلط نہیں کہا جاسکتا۔
حکومتی وکیل نے عدالت کو سماجی انصاف اور بااختیار بنانے کے حوالے سے قائم محکمے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے سے ہمارا خاندانی اور سماجی نظام تباہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام ریاستوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ عوامی آرا پر مبنی سروے رپورٹ تیار کریں، اگر کسی ریاست میں عوام ہم جنس پرستوں کی شادی کے حق میں ہیں تو وہاں اس کے حق میں قانون سازی کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں.
آندھرا پردیش حکومت نے کہا کہ اس نے مختلف مذاہب کے سربراہوں سے مشورہ کیا، اس نے مزید کہا کہ ہندو، مسلم اور عیسائی مذہبی سربراہان نے درخواست کی مخالفت کی۔