اپریل تا جون؛ ویٹڈ ایوریج بینکنگ اسپریڈ 7.73 فیصد رہی
(وہ فرق جو بینکوں کی جانب سے قرضے لینے اور دینے پر ہوتا ہے) گزشتہ مالی سال کی 30 جون کو ختم ہونے والی آخری سہہ ماہی کے دوران دو دہائیوں کی بلند ترین سطح 7.73 فیصد پر پنچ گئی۔
جے ایس گلوبل ریسرچ کے مطابق ویٹڈ ایوریج بینکنگ اسپریڈ 2004 کے بعد بلند ترین شرح پر پہنچ چکی ہے، جو اکتوبر تا دسمبر 2021 میں 4.14 فیصد کیکم ترین سطح پر تھی، ریسرچ ہاؤس نے مزید بتایاکہ نئے قرضوں اور ڈیپازٹس پر اسپریڈاپریل تا جون 2023 کے دوران نمایاں طور پر 9.73 فیصد تک بڑھ گیا، جو کہ 2015 کی تیسری سہہ ماہی میں 2.86 کی سطح تک گر گیا تھا۔
اسماعیل اقبال سیکیورٹیز کے ریسرچ ہیڈ فہد رؤف نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی بینک کے پالیسی ریٹ میں 22 فیصد تک کے تاریخی اضافے کی وجہ سے ویٹڈ ایوریج بینکنگ اسپریڈ میں اضافہ ہورہا ہے، اس کی بڑی وجہ کرنٹ اکاؤنٹ ہیں، جن پر زیرو انٹرسٹ ریٹ ہوتا ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ 23.7 ٹریلین روپے مالیت کی حامل ٹوٹل بینکنگ کا 40 فیصد بنتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آئندہ مالی سال کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 9 ارب ڈالر سے بڑھ جائے گا
انھوں نے کہا کہ بینک حکومت کو 23 فیصد کی شرح سے بڑے پیمانے پر قرضے دے رہے ہیں، حکومت کو بینکوں پر اپنا انحصار ختم کرنا ہوگا تاکہ پرائیویٹ سیکٹر بھی قرض حاصل کرسکے، بینک حکومت کو قرضے دے کر بھاری منافع کما رہے ہیں، پرائیویٹ سیکٹر کو قرضوں کی فراہمی سے معیشت میں بہتری کے امکانات پیدا ہوں گے۔
حکومت نے ٹی بلز کے ذریعے حالیہ آکشن میں 23 فیصد کی شرح سود پر 621 ارب روپے کے قرض حاصل کیے ہیں، اگر حکومت اپنا900 ارب روپے کا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو شرح سود نئی بلندی پر پہنچ جائے گی، بینکس نے حکومت کو 1.15 ٹریلین روپے کے قرض دینے کی پیش کش کی ہے، تاہم حکومت رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی جولائی تا ستمبر کے درمیان اپنے قرضوں اور اخراجات کی ادائیگی کیلیے11 ٹریلین روپے حاصل کرنا چاہتی ہے۔
حکومت کے بڑے اخراجات میں سود کی مد میں 59 ٹریلین روپے کی ادائیگی شامل ہے، ایف بی آر کا جمع کردہ 70 فیصد ریونیو سود کی ادائیگی میں خرچ ہوتا ہے، جس کا حجم مرکزی بینک کے پالیسی ریٹ میں اضافے کی وجہ سے بڑھتا جارہا ہے، انٹرسٹ ریٹ میں ایک فیصد اضافے کے نتیجے میں سود کی ادائیگی میں 200 ارب روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے