عدت میں نکاح؛ ہو سکتا ہے جج کی کیس سے الگ ہونے کی وجہ درست نہ ہو، اسلام آباد ہائیکورٹ
دورانِ عدت نکاح کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہو سکتا ہے جج کی کیس سے الگ ہونے کی وجہ درست نہ ہو۔
بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت کے دوران نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں سے متعلق درخواستوں پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔
قبل ازیں رجسٹرار آفس نے اعتراض عائد کیا تھا کہ سیشن کورٹ میں معاملہ زیر التوا ہونے پر ہائی کورٹ کیسے سماعت کر سکتی ہے، تاہم عدالت نے دونوں درخواستوں پر اعتراض ختم کر دیا۔
بشریٰ بی بی کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سیشن کورٹ میں زیر التوا سزا معطلی کی درخواست پر ہائی کورٹ فیصلہ کرے۔ اسی طرح عمران خان کی درخواست میں استدعا کی گئی کہ کیس واپس بھیج کر سیشن جج شاہ رخ ارجمند کو محفوظ فیصلہ سنانے کا حکم دیا جائے، دوسری صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ خود اپیل سن کر فیصلہ کرے۔
پٹیشنر کی جانب سے سلمان اکرم راجا پیش ہوئے، عدالت نے استفسار کیا کہ اس درخواست پر کیا اعتراض ہے؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ میں حقائق بتاتا ہوں کہ اس عدالت سے کیوں رجوع کیا ہے، ایک ایڈمنسٹریٹو آرڈر جوڈیشل ریلیف لینے سے نہیں روک سکتا۔ سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے سزا کیخلاف اپیلوں پر فیصلہ سنانے کی تاریخ مقرر کی تھی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ سیشن جج کو واپس معاملہ بھجوائیں یا ہائی کورٹ خود سن لے؟ ، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ 23 مئی کو سیشن جج نے کہا 29 مئی کو فیصلہ سنائیں گے۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا ۔ شکایت کنندہ نے 29 مئی کو تحریری درخواست نہیں دی لیکن اس سے پہلے عدم اعتماد کی درخواست دی جو مسترد ہو گئی تھی۔
وکیل نے دلائل میں کہا کہ 16 جنوری کو اس کیس میں فرد جرم عائد ہوئی، یکم فروری کو شہادتیں ریکارڈ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو 2 دن میں مکمل ہو گیا۔ 2 فروری کو رات گئے تک جیل سماعت میں چاروں گواہوں کے بیانات مکمل کر لیے گئے۔ 3 فروری کو عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو سزا کا فیصلہ سنا دیا۔ سزا کے خلاف اپیل 23 فروری کو دائر کی گئی۔
بشریٰ بی بی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں بتایا کہ بشریٰ بی بی کی جانب سے درخواست قدرے مختلف ہے۔ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ سیشن کورٹ میں اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہو رہا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پاس اختیار ہے کہ سزا معطلی کا حکم جاری کرے۔ خاتون پٹیشنر چاہتی ہے کہ اسے ریلیف دیا جائے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہو سکتا ہے کہ کیس سے الگ ہونے کی وجہ درست نہ ہو۔ عدالت نے استفسار کیا کہ جب جج خود کیس سے الگ ہو جائے تو پھر کیا دوبارہ اسے بھجوانا مناسب ہے؟۔ بعد ازاں عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی درخواستیں منسلک کر دیں اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواست پر 13 جون کے لیے نوٹس جاری کردیا۔