بین الاقوامی

یوکرین کو دیا گیا امریکی ایف-16 طیارہ روس سے جھڑپ کے دوران کیوں سنبھل نہ پایا

واشنگٹن: امریکا کا یوکرین کو دیا گیا ایف 16 لڑاکا طیارہ اُس وقت گر کر تباہ ہوگیا جب اس نے ایک روسی حملے کو ناکام بنانے کے لیے پرواز بھری تھی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق روسی فوج کے ساتھ جنگ کے دوران امریکی ساختہ ایف-16 طیارے کے گر کر تباہ ہونے سے پائلٹ کی موت واقع ہوگئی۔ طیارے کو کوئی میزائل نہیں لگا تھا۔

یاد رہے کہ یوکرین کو رواں ماہ ہی امریکا نے 6 عدد ایف 16 لڑاکا طیارے دیئے تھے جسے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے 4 اگست سے استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یوکرین کی فوج کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ  طیارے نے گرنے سے قبل روس کے 4 کروز میزائل کو مار گرایا تھا اور اگلے ہدف کی جانب سے بڑھ رہا تھا کہ اچانک رابطہ منقطع ہوگیا۔

ریسکیو آپریشن کے دوران طیارے کا ملبہ مل گیا جس میں سے پائلٹ کی جلی ہوئی لاش بھی برآمد ہوئی۔ پائلٹ کی شناخت اولیسکی میس کے نام سے ہوئی ہے جو یوکرینی ایئرفورس کے ماہر اور مشاق پائلٹ سمجھے جاتے تھے۔

تاہم یوکرینی فوج کے بیان میں مزید کہا گا ہے کہ امریکی ساختہ ایف 16 طیارہ روس کے حملے کے نتیجے میں تباہ نہیں ہوا۔ یہ حادثہ ممکنہ طور پائلٹ کی غلطی کی وجہ سے پیش آیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حادثے کی وجہ کے تعین کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دیدی گئی۔

ادھر ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے حال ہی میں بھیجے گئے ایف-16 طیارے میں کوئی فنی خرابی پیدا ہوگئی تھی۔ ہلاک ہونے والا یوکرینی فوج کا ٹاپ کا پائلٹ تھا اس لیے غلطی ہونا ممکن نہیں۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر وائرل تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکی ایف-16 طیارے کے پچھلے حصہ میں آگ لگی ہوئی ہے اور وہ اسی حالت میں فضا میں اُڑ رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہی بعض عینی شاہدین نے بتایا کہ طیارے میں گرنے سے پہلے ہی آگ بھڑک اُٹھی تھی اور وہ ہچکولے کھاتے ہوئے زمین بوس ہوا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حیران کن طور پر پائلٹ نے چھلانگ نہیں لگائی۔ کیا پیراشوٹ کام نہیں کر رہا تھا یا ہنگامی حالت میں طیارے سے باہر نکلنے کا خودکار نظام خراب ہوگیا تھا۔

جنگی ماہرین نے اس واقعے کی پیشہ وارانہ تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا۔

سوشل میڈیا پر صارفین نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ مبادا امریکا نے یوکرین کو وہ ایف-16 طیارے دیئے جن میں فنی خرابی تھی یا وہ پہلے ہی اپنی میعاد پوری کر چکے تھے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button