برسلز(امن نیوز انٹرنیشنل) ۲۹ اپریل کو یورپی پریس کلب برسلز میں پاکستان پریس کلب بیلجئیم، انٹرنیشنل کونسل فار ہیومن ڈیولپمنٹ اور سفارت خانہ پاکستان کی جانب سے جیو ٹیلی ویژن کے یورپ کے بیورو چیف، سینئر صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن، خالد حمید فاروقی کی یاد میں پہلی سالانہ میموریل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کے دوسرے سیشن میں مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔
پروگرام کی صدارت سینئر صحافی، راؤ مستعجاب احمد خان، مہمان خصوصی قائم مقام سفیر پاکستان، سید فراز زیدی، انسان حقوق کی معروف کارکن ماریان لوکاس اور کشمیر کونسل-یورپ کے صدر علی رضا شاہ پینل میں شامل تھے۔ پروگرام کی نظامت پاکستان پریس کلب بیلجئیم کے صدر عمران ثاقب نے کی۔
پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان پریس کلب بیلجئم کے جنرل سیکرٹری ندیم بٹ حاضرین کو خوش آمدید کہا اور دعائے مغفرت کے بعد کہا کہ خالد حمید نئے صحافیوں کو سکھانے سمجھانے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ وہ ہر عالمی فورم پر پاکستان کا دفاع کرتے تھے اور اعلی انسانی قدروں کی ترویج کے لئے ہر وقت مشغول رہتے تھے۔
خالد حمید فاروقی کی زندگی اور خدمات پر مقالہ پڑھتے ہوتے ہوئے، شیراز راج نے کہا کہ خالد حمید فاروقی کا خمیر آزادی صحافت، انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے لئے جدوجہد سے اٹھا تھا تھا اور انہوں نے اپنی زمانہ طالب علمی سے ہی جمہوریت کی بالادستی کے لئے جدوجہد شروع کی۔
وہ پاکستان کو ایک ایسی جمہوریت کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے جہاں آئین کی بالادستی ہو اور شہریوں کے مابین مساوات کا اصول کارفرما ہو۔
خالد حمید فاروقی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سلیم میمن نے کہا کہ وہ بہت ایماندار اور محنتی انسان تھے اور ہمیشہ اپنے پیشہ ورانہ اخلاقیات سے جڑے رہتے تھے۔ فرانس سے تعلق رکھنے والے، آج ٹی وی کے بیورو چیف، یونس خان نے کہا کہ وہ بہت اچھے صحافی، اور بہت اچھے انسان تھے اور صحافت کی اعلی اخلاقیات کے علم بردار تھے۔
نوجوان خاتون صحافی عائزہ راجہ نے کہا کہ وہ سچی صحافت کے آئینہ دار تھے۔ پیپلز پارٹی بیلجئم کے سربراہ، ملک اجمل نے کہا کہ وہ جمہوریت اور انسان دوستی کا داعی تھا اور ان کی ترویج کے لئے شبانہ روز کام کرتا تھا۔
مسلم لیگ نون بیلجئیم کے سربراہ، حاجی پرویز نے کہا کہ ان کی شخصیت بہت پہلو دار تھی اور انہوں نے بئلجئیم میں صحافت کو فروغ دینے میں بہت بنیادی کردار ادا کیا۔ اسی طرح انہوں نے کشمیر کاز کے لئے بہت کام کیا۔ وہ ہمیشہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے اور ان کی مدد کرتے تھے۔
اوورسیز پروگریسو پاکستانیز کے سینئر راہنما وحید بھٹی نے کہا کہا کہ وہ اس شام کو ہمارے پاس ہالینڈ آنے والے تھے کیونکہ انہوں نے یوکرین جنگ کے حوالے سے گفتگو کرنا تھی، اس کی بجائے ہمیں انکی رحلت کی خوفناک خبر ملی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک غیر معمولی انسان تھے، انتہائی بہادر، با اصول، باکردار اور حقوق و انصاف کے انتھک کارکن تھے۔
علی رہا سید نے کہا کہ وہ آخری دم تک مقبوضہ جموں کشمیر کے پسماندہ عوام کی جدوجہد آزادی کی حمایت کی اور ہمارے ساتھ کشمیر کاز کے لئے ان تھک کام کیا۔
فلسطینی صحافی احمد رضا نے کہا کہ وہ تمام دنیا کی آزادی کی تحریکوں خصوصا فلسطین کے عوام کے ساتھ تھے۔ بیلجئیم کی سیاست میں متحرک محمد ناصر نے کہا پاکستان اور کشمیر کے لئے ان کی خدمات کبھی بھلائی نہ جا سکیں گی۔ عمر میمن نے کہا کہ وہ ہر مذہب، ہر قوم اور ہر شناخت کے لوگوں کا احترام کرتے تھے۔
سینئر سیاسی کارکن، اکرم قائم خانی نے کہا کہ وہ ریاست پاکستان کی جانب سے اعلی سطحی ایوارڈ کے حقدار ہیں۔
ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن ماریان لوکاس نے کہا کہ خالد ایک بہت با اصول صحافی اور سچے انسان تھے اور وہ ایک انتھک انسانی حقوق کے کارکن تھے۔ ڈاکٹر منظور نے کہا کہ وہ بہت پڑھے لکھے انسان تھے، دانشور اور محقق بھی تھے۔ سینئر سیاسی کارکن اور سماجی راہنما، سید اعجاز حسین سیفی نے کہا کہ با اصول صحافت ایک آگ کا دریا ہے اور خالد نے وہ دریا پار کیا تھا۔
مہمان خصوصی، سید فراز زیدی، سفیر پاکستان نے کہا کہ خالد حمید فاروقی سچ کے بے خوف سپاہی تھے اور انصاف کے لئے ہر سطح پر سرگرم تھے۔ انہوں دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف میں ان کی خدمات کا تزکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ خالد حمید کو اپنے موضوع پر گرفت ہوتی تھی اور وہ بہت جذباتی وابستگی کے ساتھ کام کرتے تھے۔
پروگرام کے صدر، راؤ مستعجاب احمد نے کہا کہ وہ خالد حمید کو ان کے زمانہ طالب علمی سے جانتے تھے۔ وہ ضیا آمریت کے خلاف جدوجہد میں کئی مرتبہ گرفتار ہوئے۔ وہ ایک پروگریسو انقلابی تھے۔ وہی سوچ ان کی صحافت میں بھی در آئی۔ان کی زندگی میں تضاد بالکل نہیں تھا۔ وہ اپنی دھرتی کی مٹی سے جڑا ایک یونیورسل شخص تھا۔ وہ علمی سطح پر اور پاکستان کے اندر بھی انسانی حقوق اور آزادیوں کے لئے آواز اٹھاتا تھا۔ انہوں نے معروف صحافی مرتضی سولنگی کا ایک کمنٹ بیان کیا کہ خالد کی موت ہمارے لئے ایک صدمہ ہے لیکن ان کی زندگی ایک ترانہ ہے جو ہم ہمیشہ گاتے رہیں گے۔
پروگرام کے دوسرے حصہ میں مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا تھا جس کی صدارت جرمنی کی معروف شاعرہ، سیدہ صائمہ زیدی نے کی، مہمان خصوصی، عدیل شاکر تھے جب کہ شعرا میں مدبر آسان، سلیم جہانگیر، عاصم جعفری، ناصر وصال اور شیراز راج تھے۔ مشاعرہ کی نظامت عمران ثاقب نے کی۔