صعنت و تجارت

ڈالرز لانے کیلیے ترسیلات زر کارڈ متعارف کرانے سمیت دیگر اقدامات ناگزیر

کراچی: پاکستان کے دیرینہ مسائل روز بروز مزید عیاں ہوتے جاتے ہیں اور ان میں شاید سب سے بنیادی یہ ہے کہ ہم اتنے ڈالرز نہیں کماپارہے کہ اپنا درآمدی بل ادا کرسکیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق نائب گورنر اور ہردلعزیز مرتضی سید مستقل بنیادوں پر اپنی تحاریر کے ذریعے عوم کو ان مسائل سے آگاہ کرتے رہتے ہیں اس امید پر کہ شاید پالیسی ساز بھی اس پر کچھ توجہ دیں۔ جس بنیادی بات کو وہ اجاگر کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے اخراجات ذرائع سے زائد ہیں جن میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔

نیا پاکستان سرٹیفکیٹ، اس سرٹیفکیٹ سے وابستہ شرح منافع چاہے وہ روپوں کی شکل میں ہو یا ڈالرز کی اس کا دوبارہ جائزہ لینے میں معمول سے زیادہ تاخیر ہے۔ اس وقت مقامی ٹریڑری بلز کے شرح منافع 20 فیصد کی حد کو چھورہے ہیں جبکہ نیا پاکستان سرٹیفکیٹ کے منافع کی شرح کو 15 فیصد پر ہی اٹکایا ہوا ہے۔

اسی طرح نیا پاکستان سرٹیفکیٹ کے لیے ڈالرز کے منافع کا از سر نو جائزہ بھی کافی تاخیر کے بعد لیا گیا تاہم اس وقت بھی موجودہ عالمی مارکیٹ کی حرکیات کے مدنظر اس پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں مصر نے 11 فیصد شرح پر عالمی قرض حاصل کیا ہے کیونکہ ان کی کریڈٹ ریٹنگ اس وقت ہم سے بہتر ہے۔

اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں اگر ہم سمندر پار پاکستانیوں سے 9-10 فیصد شرح پر قرض حاصل کرسکیں۔لائلٹی ترسیلات زر کارڈ: ایسے سمندر پار پاکستانی جو ایک خطیر رقم ملک بھجواتے ہیں انہیں لیے کریڈٹ اور دیگر مراعات کا اعلان کیا جانا چاہئے اس کے علاوہ رقم کے حجم کے تناسب سے 2 سے 3 فیصد مزید ٹیکس کٹوتی کی مراعات کی بھی پیشکش کی جانی چاہئے۔

آئی ٹی کی برآمدات، حکومتی اداروں کی جانب سے اس ضمن میں انتھک کاوشوں کی ضرورت ہے تاکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات کو بڑھایا جاسکے۔ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام اس قابل نہیں کہ وہ معیاری آئی ٹی پروفیشنل پیدا کرسکے۔

مقامی سیاحت میں اضافہ، سمندر پار ایسے پاکستانی جو پاکستان سیاحت کی غرض سے آنا چاہتے ہیں انھیں ہوٹل کی بکنگ، ٹیکسی کے کرایوں کی مد میں اور شاپنگ وغیرہ پر ٹیکس چھوٹ دی جانی چاہئے تاکہ اس شعبے کو فروغ دیا جاسکے۔

ایک سال سے بھی کم عرصے میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 170 سے گرکر 290 ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں ایک بڑی تعداد میں متوسط طبقے کی قوت خرید میں فرق پڑا ہے اور اس کے ساتھ بیرون ملک چھٹیاں گزارنے یا گھومنے جانے کے رجحان میں بھی کمی آئی ہے۔

جدید صنعت کاری مراکز کا قیام؛ بھارت میں حال ہی میں Foxconn نے 19 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے جس کے بعد چین اور تائیوان کے سیمی کنڈکٹر بنانے والے بڑے اداروں نے بھارت کا رخ کرلیا ہے اس کے علاوہ ایپل کمپنی نے بھی حال ہی میں بھارت میں ایک لاکھ نئی نوکریاں دینے کا عندیہ دیا ہے۔

سرکلر اسکل پروگرام؛ ایسے پاکستانی جنہوں نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی اور وہیں وہ نوکریں کررہے ہوں اگر وہ پاکستان واپس آکر کر کام کریں تو انہیں ٹیکس مراعات دی جانی چاہئے اور وہ پاکستان میں کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے تاکہ پاکستان کو عالمی صلاحیتوں کے تربیت افراد کی شکل میں بہترین افرادی قوت میسر آسکے۔ ایسے پاکستانی اساتذہ اور ماہرین تعلیم جو بیرون ملک جامعات سے وابستہ ہوں انہیں فوری طور پر اچھی تنخواہوں پر واپس پاکستانی بلایا جانا چاہیے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button